کشمیر میں روایتی اردوصحافت کا زوال اور ڈیجیٹل میڈیا کا عروج

Advertisement
Advertisement
- Advertisement -

بلال بشیر بٹ
مدیر اعلیٰ
روزنامہ سرینگر جنگ

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کے ظہور سے روایتی صحافت خاص طور پر پرنٹ میڈیا اور اُس میں بھی اکثریتی طور اردو اخبارات کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔یعنی وہ دور گیا جب آنکھ کُھلتی تھی تواخبار طلب کرتے تھے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کی وجہ سے لازمی طور روایتی اردو اخبارات کے قارئین کی تعداد میںبھی کمی واقع ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نوجوان آن لائن خبروں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ بات باعث ِ شرمندگی ہے مگر اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا کہ دنیا کے اس حصے میں اکثر اردو اخبارات ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو اپنانے میں سُست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں حتیٰ کہ متعدد اخبارات اس وجہ سے معیاری صحافت پیش کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور ان اخبارات کومحض ڈیزائنرزکے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔ یہ غیر ذ مہ دارانہ رویہ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو اپنانے میں تاخیراردو اخبارات کو وسیع کینواس پر آن لائن سامعین تک پہنچنے کی صلاحیت کو روکتی ہے۔
بات یہاں پر صرف غیر معروف اخبارات کی نہیں ہے بلکہ موقر اخبارات کا انحصار بھی محض نیوز ایجنسیوں کے مواد پر ہے جس وجہ سے ہمیںتقریباً تمام اخبارات میں نہ صرف من و عن اورایک جیسی خبرکا مشاہدہ کرنا پڑتا ہے بلکہ سُرخیاں بھی یکساں ہوتی ہیں سب اخباروں کی طرح یہ کہ املا ء میںبھی ایک جیسی کوتاہیاں معمول بن گیا ہے۔
سرسری طور بھی اگر دیکھاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اردو اخبارات کا مواد بالکل یکساں ہوتا ہے جس کی اہم وجہ نیوز ایجنسیوں سے حاصل کردہ مواد ہے۔دیگر زبانوں کے اخبارات کے برعکس چنداردو اخبارات میں ہی قارئین کو تازہ ترین اداریے، فیچر یا خصوصی رپورٹ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔انگریزی یاہندی جیسی دیگر معروف زبانوں کے مقابلے میں اردو صحافت کی کم ہی آن لائن رسائی رہی ہے کیونکہ لوگ انٹرنیٹ پر اردو صحافت کو بڑے پیمانے پر تلاش نہیں کرسکتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں انگریزی اخبارات کے مختلف ملٹی میڈیاپروگرام جیسے انٹرویو اوررپورٹنگ اردو زبان میںہی نشر ہوتے ہیں۔جب اس تعلق سے نجی محفلوں میں تذکرہ ہوتا ہے تو اقتصادی بدحالی کی بات سامنے آتی ہے جو ایک تلخ حقیقت ہے۔بہت سے اردو اخبارات واقعی اس شعبے کو دوام بخشنے کی جستجو رکھتے ہیںمگر پرائیویٹ اشتہارات کی محدود سپلائی کی وجہ سے مالی مسائل سے دوچار ہیںکیونکہ ابھی بھی ہمارے یہاں Old Is Gold کا فلسفہ رائج ہے۔ان کا اکثر سرکاری اشتہارات پر بہت زیادہ انحصاررہتا ہے جہاںحوصلہ افزائی کے عین برعکس مایوسی کا بول بالا رہتا ہے۔
ایک دہائی قبل بحیثیت ایک نوجوان صحافی مجھے اس بات کا یقین ہوا کہ اردو زبان میں احساسات کی ترجمانی دیگر زبانوں کے برعکس زیادہ آسانی سے ہوتی ہے۔ چونکہ مجھے انگریزی صحافت میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت حد تک مہارت تھی ،اس وجہ سے میں نے اپنے ہنر کو اردو صحافت میںڈھالنے کی ایک کوشش شروع کی۔ یہاںمجھے غرض اپنامنہ میاں مٹھو بننا نہیں ہے بلکہ اپنے ہم پیشہ دوستوں کیلئے ایک نظریہ پیش کرنا ہے۔
جولائی2022 عیسوی میں پہلی بار میری ادارت میںشائع اخبار روزنامہ سرینگر جنگ نے QR Codeکو پرنٹ ایڈیشن میں متعارف کیا جو قارئین کو پرنٹ ایڈیشن کے ذریعے ویڈیویا تفصیلی کہانیاں دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔میں سمجھتا ہوںکہ اس کے علاو ہ یہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے پرنٹ میڈیا کے خلا کو پُر کرنے کی ضرورت کو پورا کرے گاجس سے لوگوں کو پرنٹ ایڈیشن کے ذریعے موبائل فون پر آسانی سے آن لائن میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کی ترغیب ملے گی۔
2023 عیسوی اور 2024 عیسوی میں روزنامہ سرینگرجنگ نے قارئین کو روایتی گھسی پٹی خبروںکی کوریج کے ایک تنگ دائرے تک محدود رکھنے کے بجائے آرٹ، ثقافت، حالات حاضرہ، روایت، سیاست، شخصیات، گمنام ہیروز، انٹرویوز، تاریخ اور ترقیاتی مسائل پر محیط بہترین مواد اور ڈیزائن پر مشتمل روزانہ کی بنیاد پر ایک صفحہ شائع کرنے کا عمل شروع کیا۔ ان صفحات کو عنقریب ہی ایک کتاب compendiumکی صورت میں شائع کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ہماری کوشش رہتی ہے کہ ایک پیشہ ورانہ ادارے کی طرح اخبار کی خبریں صرف نیوز ایجنسیوں پر منحصرنہ ہو ںبلکہ ایک اخبارکا مدیر خود رات دیر گئے تازہ ترین خبر بنانے کا مادہ رکھتا ہو اورجس کے لئے مدیر کیساتھ ایک tech savvyافراد کا ہونا لازمی ہے اور جو عمل صبح کے اخبار میں تازہ ترین خبر شائع ہونے کا موجب بنے۔ان انتھک کوششوں کی اگر چہ مقامی طور پر حوصلہ افزائی ندارد ہے تاہم یہاں میں exchange4mediaاور Media Federation of Indiaکو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ہماری ان چھوٹی سی کوششوں کو پذیرائی بخشی۔حالانکہ فقط ہماری کوششوں سے ہی مقامی سطح پر اردو صحافت کی راتوں رات تقدیر نہیں بدل سکتی تاہم اس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرزکی کوششیں مطلوب ہیں۔
متعلقہ حکام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اردو پرنٹ میڈیا کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔خاص طور پر ان اداروں کو اشتہارات کے ذریعے معانت کریں جو اصل میںاور سنجیدگی کیساتھ اس شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اور پیشہ وارانہ طریقے سے اردو صحافت کے تئیں اپنی خدمات انجام دیتے رہیں ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ حکومت نئے نظریے اور نوجوانوں کو اردو صحافت کے ورثہ کی حفاظت کو یقینی بنانے میں مدد کریں۔اس تعلق سے نہ صرف حکام اور اخبارات کے عملے پر بلکہ قارئین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اردو اخبارات کے مضامین کو فعال طور پر پڑھیں، بحث کریں اور ان کا اشتراک کریںخواہ آف لائن یا آن لائن ہو۔ سوشل میڈیا پر شیئر کرکے شائع مضامین کی مثبت طورتشہیر کریںجو نئے قارئین کو متوجہ کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔
اخباری ایڈیٹرز اور صحافیوں کے ساتھ تعمیری آراء کا اشتراک کرنے کے علاوہ درست، غیر جانبدارانہ اور اچھی طرح سے تحقیق شدہ رپورٹنگ کا مطالبہ کریں۔اس کے علاوہ اردو زبان کے گنے چنے بزرگ/سینئر صحافیو ں کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کے تئیں بالغ نظری کا مظاہرہ کرکے ان کی تربیت میں بھر پور کردار ادا کریں وگرنہ اردو صحافت مخصوص جملوں ” کہیں نہ کہیں” “اگر ہم بات کریں” ناظرین و کرام ” ہمارے ساتھ بات کرنے کیلئے”پر ہی منجمند ہوگی۔

Our Social Networks

join our wHATSAPP CHANNEL

Advertisement

Latest

Advertisement

Related Articles

Advertisement
error: Content is protected !!